الاستفتاء: کیا فرماتی ہیں عالمات دین و مفتیا ت شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہندو کی عیات کرنا کیسا ہے؟ بینوا وتوجروا….

بسمہ تعالی و تقدس الجواب:   صورت مستفسرہ میں مسلمان کے لیے ہندو   مریض کی عیادت کرنا شرعا جائز ہے اور  اس میں قصد یہ ہونا چاہیےکہ  وہ مسلمانوں کا حسن سلوک دیکھ کر  اسلام کی جانب مائل ہو ۔
 چنانچہ،علامہ بدر الدین  ابو محمد محمود بن احمد عینی حنفی متوفی 855ھ فرماتے ہیں:
قال ابن بطال: إنما يعاد لمشرك ليدعى إلى الإسلام إذا رجى إجابته وإلا فلا. قلت: الظاهر أن هذا يختلف باختلاف المقاصد، فقد تقع لعيادته مصلحة أخرى، ولا يخفى ذلك (عمدة القاري شرح صحيح البخاري،باب عيادة المشرك،جزء:21،ص:218،دار الفكر،بيروت)
علامہ ابن بطال نے فرمایا کہ مشرک کی عیادت اسے دعوت اسلام دینے کے لیے کی جائے جبکہ اس کے اسلام قبول کرنے کی امید ہو ور نہ نہیں،  میں کہتا ہو ں کہ ظاہر ہے کہ  یہ حکم مقاصد کے مختلف ہونے کے ساتھ  مختلف ہوتا ہے،  پھر کبھی  مشرک کی عیادت کرنے میں کوئی دوسری مصلحت بھی ہوتی ہے اور یہ مخفی نہیں ہے۔
نیز، علامہ محمد امین ابن عابدین شامی متوفی1252ھ لکھتے ہیں:
 (قوله وجاز عيادته) أي عيادة مسلم ذميا نصرانيا أو يهوديا، لأنه نوع بر في حقهم وما نهينا عن ذلك، وصح أن النبي الله «عاد يهوديا مرض بجواره» هداية (قوله وفي عيادة المجوسي قولان) قال في العناية فيه اختلاف المشايخ فمنهم من قال به، لأنهم أهل الذمة وهو المروي عن محمد، ومنهم من قال هم أبعد عن الإسلام من اليهود والنصارى، ألا ترى أنه لا تباح ذبيحة المجوس ونكاحهم اهـ.
قلت: وظاهر المتن كالملتقى وغيره اختيار الأول لإرجاعه الضمير في عيادته إلى الذمي ولم يقل عيادة اليهودي والنصراني، كما قال القدوري وفي النوادر جار يهودي أو مجوسي مات ابن له أو قريب ينبغي أن يعزيه، ويقول أخلف الله عليك خيرا منه، وأصلحك وكان معناه أصلحك الله بالإسلام يعني رزقك الإسلام ورزقك ولدا مسلما  (ردالمحتار،کتاب الحظروالاباحۃ،فصل فی البیع،جزء:6،ص:388،دار الفكر،بيروت)
یعنی مسلمان کا ذمی نصرانی یا یہودی کی عیادت کرنا جائز ہے کیونکہ یہ  ان کے حق میں نیکی کی ایک صورت ہے اور ہمیں اس سے منع نہیں کیاگیا،اور صحیح ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے پڑوس میں رہنے والے بیمار یہودی کی  عیادت فرمائی ہے  (الہدایہ) ۔ عیادت مجوسی کے بارے میں دو قول ہیں، عنایہ میں فرمایا کہ اس میں اختلاف مشائخ ہے کہ  ان میں بعض اس کے قائل ہیں کیونکہ وہ اہل ذمہ ہیں اور یہ قول امام محمد سے مروی ہے اوربعض کہتے ہیں کہ وہ یہودونصاری کی بنسبت اسلام سے زیادہ دور ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ مجوسی کا ذبیحہ اور ان سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔ میں (ابن عابدین) کہتا ہوں کہ ملتقی وغیر ہ کے ظاہر متن سے ثابت ہوتا ہے کہ  پہلا قول مختار ہے کہ عیادت کی ضمیر ذمی کی جانب راجع ہے اور انہوں نے یہودی و نصرانی کی عیادت کا  ذکر نہیں فرمایا ، جیسا کہ قدوری اور نوادر میں ہے کہ  یہودی یا مجوسی پڑوسی کا بیٹا یا کوئی قریبی مرجائے تو اس سے تعزیت کرنا جائز ہے اور کہے کہ اللہ اس کا بہتر بدل عطا فرمائے  اور آپ کی اصلا ح فرمائے  یعنی اللہ  اسلام کے ذریعے آپ کی اصلاح فرمائے اور دولت اسلام سے سرفراز فرمائے اور  مسلمان اولاد عطا فرمائے۔
واللہ تعالی اعلم و علمہ جل مجدہ اتم واحکم
الجواب الصحیح والمجیب نجیح کتبتہ______________________
مفتی محمد شہزاد نعیمی عالمہ جویریہ جنید
دارالافتاء النوربجامعۃ النور نورمسجد
جمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ باکستان